جب اہلِ حرم آئے مدینے میں پلٹ کر
صغراسے کہا ثانیئِ زہرا نے لپٹ کر
اچھا ہوا صغرا تُو میرے ساتھ نہیں تھی
زینب کا تھا نوحہ ہم لُٹ گئے صغرا
اچھا ہوا صغر۔۔۔۔
اس بات پہ کرتی ہوں ادا شکر کا سجدا
ہم میں سے کسی کا تو سلامت رہا پردا
کس طرح بتائو تجھے دل پھٹتا ہے میرا
سادات کی غیرت کا تقاضہ نہیں صغرا
بس اتنا ہی کہتی ہوں ردا جب کی چھنی تھی
اچھا ہوا صغر۔۔۔۔
تُو پوچھتی ہے سرخ ہے کیوں آپ کی چادر
آتجھ کو بتائو میرے مظلوم کی دختر
جب خیمے میں شہ لائے لاشِ علی اکبر
میں ایسے گری لاش کے پہلو میں تڑپ کر
اکبر کے لہو سے یہ ردا سرخ ہوئی تھی
اچھا ہوا صغر۔۔۔۔
کس طرح رہی ہوگی تو اِس گھر میں اکیلی
احساس مجھے ہے تیرے اس درد کا بیٹی
لیکن تو ضعیفہ ہوئی فرقت میں پدر کی
تجھ کو تو خبر صرف شہادت کی ہے پہنچی
میںشہ کا گلا کٹتے ہوئے دیکھ رہی تھی
اچھا ہوا صغر۔۔۔۔
کیابغض ہے باباسے مسلمانوں کو جانے
پھر آئے تھے گھر فاطمہ زہرا کا جلانے
سب آکے کھڑے ہوگئے بیکس کے سرہانے
اُسوقت ستمگاروں سے عابد کو بچانے
بیٹی پھپی اماں تیری شولوں پہ چلی تھی
اچھا ہوا صغر۔۔۔۔
تنہائی میں لے جاکے کبھی پوچھنا ماں سے
کس طرح سے گزریںتیری ماںبہنیں واہاں سے
باتیں جہاں سب کرتے ہیں پتھر کی زباںسے
شب کو بھی گزرنا بڑا مشکل جہاں سے
بے پردہ واہاں دن میں ہر اک بی بی کھڑی تھی
اچھا ہوا صغر۔۔۔۔
نانا کا مدینہ ہے نہیں خوف کسی کا
دل کھول کے رو کون تجھے مارے گادُرہ
لیکن کبھی بابا پہ جو رو تی تھی سکینہ
سیلی کبھی دُرہ کبھی کھاتی تھی تماچہ
رو نے پہ بھی معصومہ کے پابندی لگی تھی
اچھا ہوا صغر۔۔۔۔
اے میر تکلم وہ قیامت تھی قیامت
زینب نے سنائی جو سکینہ کی شہادت
سادات پہ گزرا تھا عجب المِ غربت
زنداں کے اندھیرے میں بنائی گئی تربت
دم توڑتی بچی نے بھی یہ بات کہی تھی.
اچھا ہوا صغر۔۔۔