سادات نے ماتم کا پِھر فرش بچھایا ہے
غم مولا تقی تیرا کائنات پہ چھایا ہے
بچپن میں یتیمی کا صدمہ تھا سہا تو نے
تجھے زہر جوانی میں ظالم نے پلایا ہے
اے معتصم بااللہ لعنت ہو صدا تجھ پہ
عصمت کا دیا تو نے دھوکے سے بجھایا ہے
پردیس میں تھے تنھا افسوس تقی مولا
جب وقت شہادت کا مظلوم كا آیا ہے
زندان میں رو رو كے کہتے تھے تقی مولا
عابد کی اسیری نے ہائے مجھ کو رلایا ہے
یژرب سے نقی روتے بغداد میں آئے ہیں
مولا کا جنازہ یوں مولا نے پژھایا ہے
ہے مولا جواد اپنی بخشش كے لیے کافی
جو اشک تیرے غم میں آنکھوں نے بہایا ہے