یہ جنازہ ہے علیؑ کا شاہ خیبر گیر کا
آج بابا مر گیا ہے شبرؑ و شبیرؑ کا
یہ جنازہ ہے علیؑ کا شاہ خیبر گیر کا
آج بابا چل بسا ہے زینبؑ و کلثومؑ کا
فاطمہ زہراؑ کے مرقد سے صدا آنے لگی
ہائے صدا آنے لگی
یہ مصائب رہ گیا تھا کیا میری تقدیر کا
یا رسول اللہ یہ جبریلؑ نے رو کر کہا
ہائے یہ رو کر کہا
ایک حلقہ اور ٹوٹا نور کی زنجیر کا
غم علیؑ کی بیٹیوں کے پھر سے تازہ ہوگۓ
ہائے تازہ ہو گئے
غم ابھی بھولی کہاں تھیں مادر دلگیر کا
نزع میں جانے علیؑ کو کیا خیال آتا رہا
ہائے خیال آتا رہا
منہ کبھی زینبؑ کا دیکھا اور کبھی شبیرؑ کا
بیٹیوں کو دیکھتے ہیں اور روتے ہیں علیؑ
یائے روتے ہیں علیؑ
ہائے وہ ظالم تصۤور شام کی تشہیر کا
چھوٹے سے عباسؑ بھی روتے ہیں سر کو پیٹ کر
ہائے سر کو پیٹ کر
بچپنا عباسؑ کا اور زخم دل پہ تیر کا
سجدہ خالق میں سر پر چل گئی تیغ ستم
ہائے وہ تیغِ ستم
کرگیا ہے سرخرو حیدرؑ کو پھل شمشیر کا
تھپکیاں دیتے رہے حضرت کبھی عباسؑ کو
ہئے کبھی عباسؑ کو
اور بازو چومتے تھے چاند کی تصویر کا
باپ کی میت سے زینبؑ کا لپٹنا بار بار
ہئے لپٹنا بار بار
خوں رلاتا تھا تصۤور شام کی تشہیر کا
مسجدِ کوفہ میں ضربت ہائے سجدے میں لگی
ہائے سجدے میں لگی
قتل کعبہ ہو گیا یہ نعلہ تھا جبریلؑ کا
روتے تھے جس کے لئے وہ سب کا تھا مشکل کشا
ہائے تھا مشکل کشا
ہئے سکینہؑ کا تھا دادا، بابا تھا شبیرؑ کا
مچ گیا کہرام گھر میں ہائے قیامت آ گئی
ہئے قیامت آ گئی
کہتے ہیں بچے علیؑ کے کیا غضب یہ ہو گیا