الامان . . . . الامان
الامان . . . . الامان
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں
سجادؑ کو ضعیف صدائیں یہ کر گئیں
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں
ظلم و ستم کی تیز ہوائیں تھی جب چلیں
سب گلشنِ بتولؑ کی کلیان بکھر گئیں
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں
لاشوں کو رسیوں میں جکڑے لئے پھرو
سیدانیاں تو گھر سے نکلتے ہی مر گئیں
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں
جاتی تھی جو کبھی کبھی زہراؑ کی قبر پر
جانے خدا ہجوم سے کیسے گزر گئیں
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں
گودوں سے راہِ شام میں گر گر كے مر گئے
بچوں کی لاشیں دیکھ كے مائیں بھی مر گئیں
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں
رملہ یہ پوچھتی تھی سكینہؑ سے قید میں
زخمی ہیں کان بالیاں بی بی کدھر گئیں
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں
انگارے پھینکتا تھا کوئی پانی کھولتا
عباس باوفا تِری بہنیں جدھر گئیں
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں
بازار لے کے جاؤ نا بے پردہ ظالموں
مر جائیں گی حسینؑ کی بہنیں اگر گئیں
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں
سرور تو کیا لکھے گا نبی زادیوں كے غم
سمجھو كے شام جانے سے پہلے ہی مر گئیں
زہراؑ کی بیٹیوں کی ردائیں اُتر گئیں