کہا رو کے باقرؑ نے عابدؑ نے بابا
سکینہ کو کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں
ہے بابا یہاں پر بلا کا اندھیرا
سکینہ کو ۔۔۔۔۔
ہاں دیکھا ہے میں نے سفر میں یہ منظر
جہاں پانی ہوتا تھا اُس کو میسر
تو خود اپنے حصے کا پانی ہمیشہ
گراتی تھی یہ آپ کی بیڑیوں پر
میسر ہے اب ہم کو پانی تُو پیاسا
سکینہ کو ۔۔۔۔۔
جھکائے ہوئے اپنا سر رو رہی ہے
رہائی کی سُن کر خبر رو رہی ہے
تڑپتی ہے دادی رُباب ایسے بابا
کہ اماں بھی تھامے جگر رورہی ہے
بتائیں گے کیا گر اُنہوں نے یہ پوچھا
سکینہ کو ۔۔۔۔۔
مجھے یاد ہے خود یہ کہتے تھے دادا
مدینہ ہے اس کے سبب سے مدینہ
کہ میری نظر میں وہ گھر گھر نہیں ہے
نظر جس میں آئے نہ مجھ کو سکینہ
نہ اُس کے بنا پھر بسے گا مدینہ
سکینہ کو ۔۔۔۔۔
مدینہ ہو یا شام وکربوبلا ہو
کہ بازارودربار کا مرحلہ ہو
سناں اور ستم ہم نے جھیلے ہیں مل کر
تو پھر کیوں نہ یہ میرے دل کی صدا ہو
مجھے بھی یہیں چھوڑ جائیں اے بابا
سکینہ کو ۔۔۔۔۔
مجھے آج یاد آرہا ہے وہ لمحہ
گری تھی جو ناقے سے اک دن سکینہ
لگے آپ کی پُشت پر تازیانے
مگر آپ نے قافلہ روکے رکھا
رُکالیں یونہی قافلہ آج بابا
سکینہ کو ۔۔۔۔۔
اچانک نگاہیں پڑیں جو لحد پر
سوالات پھر لب پہ آئے نہ اکبر
سکینہ کی تربت کو سینے لگائے
پدر سے یہ کہنے لگے روکے باقر
سمجھ میں میری اب ہے بابایہ آیا
سکینہ کو ۔۔۔۔