اکبرؑ ہائے اکبرؑ ہائے اکبرؑ
اکبرؑ جوان ابھی تیرے مرنے كے دن نہ تھے
اپنے لہو میں آپ سنورنے كے دن نہ تھے
اکبرؑ جوان ابھی تیرے مرنے كے دن نہ تھے
رکتا نہیں ہے سینے سے جو خون ہے رواں
اے لال یہ بتا دو كہ کس جا لگی سناں
اپنی ریاضتوں کا خزینہ تو دیکھ لوں
اکبرؑ ہٹاؤ ہاتھ میں سینہ تو دیکھ لوں
اپنے لہو میں آپ سنورنے كے دن نہ تھے
اکبرؑ جوان ابھی تیرے مرنے كے دن نہ تھے
تم کیا گرے ہو مقتل میں اٹھ نہ سکا حسینؑ
تم کو سِنا لگی ہے اور زخمی ہوا حسینؑ
آنکھیں جو تم چراتے ہو دِل چھوڑتے ہیں ہم
تم ہچکیاں جو لیتے ہو دم توڑتے ہیں ہم
اپنے لہو میں آپ سنورنے كے دن نہ تھے
اکبرؑ جوان ابھی تیرے مرنے كے دن نہ تھے
اولاد پہ جب آتا ہے اٹھارواں برس
خوشیاں سمیٹ لاتا ہے اٹھارواں برس
دُولھا سے آپ لگتے تھے ہر اِک لباس میں
دِل ماں کا شاد رہتا تھا سہرے کی آس میں
اپنے لہو میں آپ سنورنے كے دن نہ تھے
اکبرؑ جوان ابھی تیرے مرنے كے دن نہ تھے
قاصد کھڑا ہے پہلو میں اے لال دیکھ لو
صغریٰؑ دعائیں دیتی ہے آمین تو کہو
رکھتا ہوں خط کو لاش پہ دلبر جواب دو
صغریٰؑ سلام کہتی ہے اکبرؑ جواب دو
اپنے لہو میں آپ سنورنے كے دن نہ تھے
اکبرؑ جوان ابھی تیرے مرنے كے دن نہ تھے
اے شیرِ کبریا مجھے قوت عطا کریں
لاشِ جواں اٹھانے کی ہمت عطا کریں
آنکھوں کا نور لے گئی نورِ نظر کی لاش
خیبر كے در سے وزنی ہے میرے پسر کی لاش
اپنے لہو میں آپ سنورنے كے دن نہ تھے
اکبرؑ جوان ابھی تیرے مرنے كے دن نہ تھے
بس اے رضا كلام کو کر دو یہاں تمام
مشغول گریہ ہو گئے مجلس میں خاص و عام
صدمہ پدر کو اکبرِؑ ذیشان دیتے ہیں
صُبحُ اذان دیتے تھے اب جان دیتے ہیں
اپنے لہو میں آپ سنورنے كے دن نہ تھے
اکبرؑ جوان ابھی تیرے مرنے كے دن نہ تھے