زندان میں نہیں آتی کیوں تازہ ہوا بھیا
سجاد سکینہ کو مرنے سے بچا بھیا
دیواروں سے زنداں کی ٹکرا کے میں گرتی ہوں
پھر دیر تک بھیا تنہائی میں سسکتی ہوں
آ ریت کے بستر سے بہنا کو اٹھا بھیا
جیتی تھی امامت کے میں پاک سویروں میں
اب میری گزرتی ہے زنداں کے اندھیروں میں
اس وقت بھی رسی میں ہے میرا گلا بھیا
پانی نہیں مانگوں گی بچوں کو سنبھالوں گی
ان چھوٹے سے ہاتھوں سے تیرے کانٹے نکالوں گی
اک بار سکینہ کو تو پاس بلا بھیا
جس نے مجھے مارا تھا وہ خواب میں آتا ہے
میں سو بھی نہیں سکتی کچھ ایسے ڈراتا ہے
سجاد مجھے دے دے بانہوں میں پناہ بھیا
سجاد تیرے غم میں جو اشک بہائے گا
جو حلقہ ماتم میں سر پیٹتا آئے گا
توقیر دلاﺅں گی وعدہ ہے میرا بھیا