گھبراۓ گی زینبؑ ‘ گھبراۓ گی زینبؑ
بھیا تمہيں گھر جا کے کہاں پاۓ گی زینبؑ
کیسا یہ بھرا گھر ہوا برباد الہی
کیا آئی تباہی
اب اس کو نہ آباد کبھی پاۓ گی زینبؑ
گھر جا کے کسے دیکھے گی قاسمؑ ہیں نہ عباسؑ
اکبرؑ سے بھی ہے آس
اپنے علی اصغرؑ کو کہاں پاۓ گی زینبؑ
پوچھیں گے جو سب لوگ کہ بازو پہ ہوا کیا
یہ نیل ہے کیسا
کس کس کو نشاں رسّی کے دکھلاۓ گی زینبؑ
پھٹ جاۓ گا بس دیکھتے ہی گھر کو کلیجہ
یاد آؤ گے بھیا
دل ڈھونڈے گا تم کو تو کہاں پاۓ گی زینبؑ
بے پردہ ہوئی قید بھی خواہر نے اٹھائی
پر موت نہ آئی
کیا جانیے کیا کیا ابھی دکھ پاۓ گی زینبؑ
گھبراۓ گی زینبؑ ‘ گھبراۓ گی زینبؑ