ہو گئ شام دھواں لوری دیتی رہی ماں
جُھولا جلتا ہی رہا جُھولے سے لپٹی رہی ماں
کانپتے ہاتھوں میں سوکھے ہوئے ساغر کو لئے
دھوپ کی گود میں یادِ علی اصغرؑ کو لئے
سائے میں آئی نہیں دھوپ میں بیٹھی رہی ماں
پیاس بڑھتی رہی سُوکھے ہوئے سارے ساغر
کان دریا کی طرف آنکھ علی اصغرؑ پر
پانی بہنے کی صدا خیمے میں سنتی رہی ماں
لاشِ اصغرؑ کو لئے راہ میں رکتے رہے شاہؑ
در پہ خیمے کے جو آ آ کے پلٹتے رہے شاہؑ
خاک پہ گرتی رہی خاک سے اٹھتی رہی ماں
قافلہ آ کے رکا جب سے درِ صغریٰؑ پر
ہائے اصغرؑ کہا اور در پہ گری غش کھا کر
سنگِ در تھام لیا سر کو پٹکتی رہی ماں
ہائے جلتے ہوئے خیمے میں سیکنہؑ ہے نویدؔ
درمیاں شعلوں کے جلتا ہوا جُھولا ہے نویدؔ
دونوں کو تھامے ہوئے آگ میں جلتی رہی ماں