زنداں کے اندھیرے میں سہمی ہوئی معصومہؑ ہائے اشک بہاتی ہے
تنہائی کے عالم میں اک خوف زدہ بچی بابا کو بلاتی ہے
خود سے ہی وہ کرتی ہے باتیں علی اصغرؑ کی
اک لوری مچلتی ہے جب جھولے کی ماٹی پہ تصویر بناتی ہے
دیکھا ہے سکینہؑ نے کوئی خواب ڈراؤنا سا
بکھری ہوئی لاشوں میں لاشہ علی اصغرؑ کا یہ ڈھونڈنے جاتی ہے
زنجیر علی عابدؑ کے جب دھوپ سے جلتے ہیں
معصومہؑ کے پینے کو ہائے ملتا تھا جو پانی کڑیوں پہ گراتی ہے
زنداں سے سکینہؑ کی آواز نہیں آتی
دیکھو اے لعل میرے رو رو کے دکھی زینب ؑ عابدؑ کو بتاتی ہے
کیا ظلم کیا ہوگا ملعون شمر تو نے
تجھے دیکھ کے مظلومہ ؑ ہائے کانپتے ہاتھوں سے کانوں کو چھپاتی ہے
نیزے پہ بھی غازیؑ کے نیچے ہے نظر اختر
غیور کو سر ننگے اغیار کے مجمعے میں زینبؑ نظر آتی ہے