سب جل چکے خیام بکھری ہوئی ہے رات
سسکتا ہے بن تمام
سب جل چکے خیام
سورج کے سر سے کھینچ لی شب نے ردائے شام
سب جل چکے خیام
خیموں کو اپنے لَوٹ چلی ظلم کی سپاہ
خوں سے زمیں سرخ ہوئی یاد سے سیاہ
اٹھتے ہوئے دھوئیں سے پلٹ ہے سیاہ بام
سب جل چکے خیام
تاریک راستوں سے دھلتے ہیں بے وطن
کانوں میں آرہی ہے صدائیں بے بزن بے بزن
سب مہربان بھلے سے کہیں چھپ گئی ہے شام
سب جل چکے
قاسمؑ سا نوجواں علی اصغرؑ سا ماہ رو
عباسؑ سا جری علی اکبرؑ سا خوش گلو
کیا کیا چراغ تھے جنہیں روتی رہے گی شام
سب جل چکے
آنکھوں کے سامنے ہی بہا عصر تک لہو
آنکھوں کے سامنے ہی لگائی آگ چار سو
یہ خوں یہ آگ جھیل لی بانو تمہیں سلام
سب جل چکے
آتا ہوا سوار جو دیکھا سوئے خیام
گونجی صدائے دختر زہرائےؑ نیک نام
بابا میرا سلام لو بابا میرا سلام
سب جل چکے خیام
سر کو جھکائے خاک پر بیٹھا ہے ایک جواں
گردن میں طوق پائوں میں لپٹی ہیں بیڑیاں
ہے دل لخت شاہ کی آواز شام شام
سب جل چکے خیام