کیسے کہا ہوگا علی اکبرؑ کو الوداع بیمار نے
الوداع الوداع کب آؤ گے پوچھا ہوگا
رو رو کے سوگوار نے
بابا کے سینے سے لپٹ کر روتی ہوگی
مجھے چھرڑ کے مت جاؤ میں تنہا مر جاؤں گی
روؤں گی جب پڑے اِن اجڑے اجڑے صحنوں میں
غربت کے دن گزارنے
لیلیٰ نے جب چوما ہائے صغراؑ کے سر کو
حسرت سے تکا ہوگا ماں نے علی اکبرؑکو
آنکھوں سے آنسوؤں کے موتی توڑ دئے ہوں گے
بیٹی کو ماں کے پیار نے
اصغرؑ کو رہ رہ کر وہ گود میں لیتی ہوگی
شاید نہ ملیں پھر ہم تڑپ کر کہتی ہوگی
کیا کہیں کس طرح روتے ہوئے بہن کی جھولی کو
چھوڑا تھا شیر خوار نے
عباسؑ دم رخصت ہاتھوں کو ملتے ہوں گے
گر کچھ نہ کہا ہوگا اشک تو ڈھلتے ہوں گے
آئیں گے ہم تجھے لینے یہ عہد کیا ہوگا
کمسن سے علمدارؑ نے
حسنین کے صدقے میں کرم یہ علیؑ نے کیا ہے
مولاؑ کے گداگر کا شرف زہراؑ نے دیا ہے
دو جہاں کی دعائیں لی ہیں ثانی زہراؑ سے
اختر سے پرسہ دار نے