سب سے چھپ کر شرم سے کبریٰ اپنے بنے کو روتی ہے
شب بیداری کرتی ہے دلہن ساری دنیا سوتی ہے
درد و الم کے پھول سجا کے نذرِ عقیدت کرنے کو
اشکِ مسلسل کے قطروں سے سوکھی قبر بھگوتی ہے
ہاتھ میں مہندی ٹکڑے بدن اور خاک پہ لڑیاں سہرے کی
خواب میں آ جاتا ہے وہ منظر جب بھی دلہن سوتی ہے
شامِ غریباں کے منظر زینبؑ کی ہیں نظروں میں اب تک
یاد آ جاتے ہیں جس دم دن ڈھلتا ہے شام ہوتی ہے
صغراؑ کبریٰؑ اور سکینہؑ تینوں بہنیں ایک سا غم
فرقت اُن کے قلب پہ ہر دم غم کے تیر چبھوتی ہے
کرب و بلا سے شام تلک راہوں میں انیسِ دیں زینبؑ
صبر و صداقت کی مالا میں چونسٹھ پھول پِروتی ہے