پیاسی رہ کر جو بچاتی ہے سکینہؑ پانی
طوق عابدؑ پہ گراتی ہے سکینہؑ پانی
اب تو آنکھوں میں بھی آئے تو چھپا لیتی ہے
شمر سے اتنا چھپاتی ہے سکینہؑ پانی
ہونٹھ کھلتے ہیں تو عباسؑ ادا ہوتا ہے
جب بھی پانی کو بلاتی ہے سکینہؑ پانی
آب کوثر بھی پٹکتا ہے فصیلوں پہ جبیں
جب بھی چلو میں اٹھاتی ہے سکینہؑ پانی
تشنگی ہے کہ یہ عباسؑ کا دکھ ہے اکبر
خاک پر لکھ کر مٹاتی ہےسکینہؑ پانی