ہاۓ کیا عالم تنہائی ہے
جب آخری رخصت کو چلے سیدِ والا
کہرام تھا دل ہوتے تھے غم سے تہہ و بالا
شبیرؑ نے گودی سے سکینہؑ کو اتارا
غازیؑ کو کبھی اکبرؑ و قاسمؑ کو پکارا
بابا کو قسم دے کے بلاتی تھی سکینہؑ
سر پیٹتی پیچھے چلی جاتی تھی سکینہؑ
اچھے میرے بابا ہاۓ کیا عالم تنہائی ہے
اچھے میرے بابا نہ سکینہؑ سے چھپانا
کہیں دور نہ جانا
دل روتا ہے کیوں پہنا ہے ملبوس پرانا
کہیں دور نہ جانا
اس طرح سفر پر کوئ جاتا نہیں دیکھا
پہنے تمہیں ایسا کبھی کرتا نہیں دیکھا
میں جان گئی آج ہے مقتل میں ٹھکانہ
کہیں دور نہ جانا
شہہ بولے میں قربان میری جان سکینہؑ
اک وعدہ ہے جو آج نبھانا ہے سکینہؑ
خیموں سے نکل کر نہ ہمیں ڈھونڈنے آنا
کہیں دور نہ جانا
کل رات سے بے چین تھے میں دیکھ رہی تھی
میں سینے پہ لیٹی تھی مگر سوئی کہاں تھی
اب سمجھی تمہيں ہم سے بہت دور ہے جانا
کہیں دور نہ جانا
آتا ہے نظر حال غریبی کا تمہاری
لگتا ہے یہ سامان یتیمی کا ہماری
بابا ہمیں جینے نہیں دیتا یہ زمانہ
کہیں دور نہ جانا
اکبرؑ کبھی اصغرؑ کبھی قاسمؑ نے رلایا
جو رن کو گیا آج پلٹ کر نہیں آیا
بھولی نہیں اب تک میں چچا جان کا جانا
کہیں دور نہ جانا
پہلو سے شہہ دیں کے نہ ہٹتی تھی سکینہؑ
دامن کبھی قدموں سے لپٹتی تھی سکینہؑ
تڑپاتا ہے یہ آپ کا دامن کو چھڑانا
کہیں دور نہ جانا
اے سرور و ریحان یہ کہنے لگے سرورؑ
ہم بھی وہیں جاتے ہیں جہاں سوتے ہیں اصغرؑ
بیٹی پھوپھی اماں کو نہ رو کے رلانا
کہیں دور نہ جانا