کچھ تو بولو آنکھیں کھولو اصغر بہن بلاتی ہے
کوزہ لے کر ہاتھوں میں وہ تجھ کو ڈھونڈنے جاتی ہے
پانی جب پایا پیاسوں نے اے لال کلیجہ تھام لیا
تیری ہمشیر سکینہ نے یہ کہہ کر تیرا نام لیا
اے میری جان رن سے آؤ اصغر بہن بلاتی ہے
پانی نہ ملا اے لال تجھے اور تیر سے تیری پیاس بجھی
معصوم سکینہ ہاتھوں میں مشکیزہ لے کر کہتی تھی
میرے پیاسے پانی پی لو اصغر بہن بلاتی ہے
پانی اور مشک میرے بچے منسوب ہوۓ دونوں تجھ سے
کہتی ہے بہن وہ تشنہ دہن سوتا ہے خفا ہوکر مجھے سے
کیوں خفا ہو کچھ بتا دو اصغر بہن بلاتی ہے
پانی بن کر یہ خون جگر آنکھوں سے تیری فرقت میں بہا
بھولوں گی نہیں مرجاؤں گی رو رو کے بہن کرتی تھی صدا
لوٹ آؤ لوٹ آؤ اصغر بہن بلاتی ہے
پانی کی جگہ تربت کو تیری اشکوں سے بھگویا بابا نے
پھولوں کی ڈال جب مل نہ سکی نوحہ کیا اس دکھیا نے
نہ سکینہ کو رلاؤ اصغر بہن بلاتی ہے