قافلہ جارہا ہے وطن کے لیے
کربلا میں قیامت کا اک شور ہے
قافلہ جارہا ہے وطن کے لئے
کوئ روتی ہے اپنے جواں لال کو
رورہی ہے کوئ کم سخن کے لئے
قافلہ جارہا ہے وطن کے لئے
اپنی بربادیوں کو گوارا کیا
خوں میں ڈوبے گلوں کا نظارہ کیا
دے دیا فاطمہ کا بھرا گلستاں
کربلا تیرے اجڑے چمن کے لئے
قافلہ جارہا ہے وطن کے لئے
قصر ظالم کبھی قید خانہ کبھی
نوک نیزہ کبھی تازیانہ کبھی
کون سی تھی اذیت جو دی نہ گئ
ہر جفا تھی اسیر محن کے لئے
قافلہ جارہا ہے وطن کے لئے
جب چلے تھے مدینے سے سب ساتھ تھے
عون و جعفر تھے اکبر تھے عباس تھے
جارہی ہوں مدینے تو کوئ نہیں
اب مصیبت فقط ہے بہن کے لئے
قافلہ جارہا ہے وطن کے لئے
قبر قاسم سے ہے یوں مخاطب پھوپھی
تیری شادی کچھ اس طرح سے بن میں ہوئ
کوئ سہرے کا بھی پھول باقی نہيں
ورنہ لے جاتی قبر حسن کے لئے
قافلہ جارہا ہے وطن کے لئے
کوئ چادر نہ تھی کیسی بے داد تھی
ہاتھ ہوتے ہوۓ بھی نہ آزاد تھی
کتنی مجبور کردی گئ تھی بہن
اپنے بھائ کے دفن و کفن کے لئے
قافلہ جارہا ہے وطن کے لئے
کوئ روتی ہے اپنے جواں لال کو
رورہی ہے کوئ کم سخن کے لئے
قافلہ جارہا ہے وطن کے لئے