پردیس میں گھر لٹ گیا بانو کی تھی فریاد
اے سید سجاد
پردیس میں
اصغر کے بنا ہو گئی دنیا میری برباد
اے سید سجاد
پردیس میں
بچوں کی جدائی میں ہے زینب کا برا حال
کبرا ہی ہے بے حال
لیلی کا جگر چھلنی ہے فروہ بھی ہے ناشاد
اے سید سجاد
پردیس میں
اکبر ہیں نہ اصغر ہیں نہ اب شاہ مبیں ہیں
ہر سمت لعین ہیں
تم ہی میرے وارث بھی ہو تم ہی میری اولاد
اے سید سجاد
پردیس میں
راتوں کو بھی اکثر جو سکینہ نہیں سوتی
اٹھ اٹھ کے ہے روتی
آنکھوں میں پھرا کرتے ہیں شاید ستم ایجاد
اے سید سجاد
پردیس میں
پردہ ہیں عماری ہے نہ چادر نہ سرور پر
خشکی ہے لبوں پر
رسی کی گرفت سے کوئی بازو نہیں آزاد
اے سید سجاد
پردیس میں