زینب نے ہلا کر شانہ کہا
اے سید سجاد اٹھو
لڑی ہے زمین کرب و بلا
زینب نے ہلا کر
گردوں نے لہو برسایا ہے
سورج بھی گرہن میں آیا ہے
سر تن سے ہوا سرور کا جدا
زینب نے ہلا کر
سر کاٹ کے نوک نیزہ پر
اعدائ رکھا ہے اے دلبر
پامال کی زد پر ہے لاشہ
زینب نے ہلا کر
فرزند نبی پر گھوڑوں کی
میں کیا کروں وہ یلغار ہوئی
سب ٹکڑے بدن سرور کا ہوا
زینب نے ہلا کر
معصوم سکینہ کے بندے
اف شمر نے اس طرح کھینچے
خون کانوں سے اب تک ہے بہتا
زینب نے ہلا کر
ہے وقت کٹھن آنکھیں کھولو
صدقے ہو پھوپھی منہ سے بولو
بیدار ہو غش سے بہرے خدا
زینب نے ہلا کر
عقبہ میں تو بے شک پائے گا
دنیا میں بھی کچھ مل جائے صلہ
کہہ دے جو انیس اتنا زہرا
زینب نے ہلا کر