زہرا کی صدا ہے مقتل میں لُٹتا ہے بھرا گھر واویلا
عباسِ علی کے بازو کو کاٹے ہے ستمگر واویلا
دُنیا کے ستم ٹُوٹے اُس پر
قاسم نہ رہے اور نہ اکبر
عباسِ دلاور نہ اصغر
شبیر اکیلے ہیں حیدر
سرور کے گلے پر ہے خنجر
اے ساقئی کوثر واویلا
واویلا واویلا ۔۔۔
مشکیزہ چھِدا اور پانی بہا
اک آن تیرِ ظلم لگا
بہتا ہے کٹے شانوں سے لہو
سر گُرزِ ستم سے چاک ہوا
آتا ہے فرض سے جانِ علی
کیوں رکھ کے زمیں پر واویلا
واویلا واویلا ۔۔۔
ساحل کے کنارے جو پہنچے
ٹُوٹا ہے فلک شہہ کے سر پر
تھے ہاتھ کہیں مشکیزہ کہیں
لاشہ تھا جری کا خون میں تر
لاشے پہ گِرے ہیں بھائی کے
شبیر تڑپ کر واویلا
واویلا واویلا ۔۔۔
ڈُوبے ہیں لہو میں مشک و علم
آئے ہیں نہر سے شاہِ اُمم
مسند پہ رکھے جب مشک و علم
سر پیٹتے ہیں اب اہلِ حرم
برپا ہے خیمئہ سرور میں
اک شورشِ محشر واویلا
واویلا واویلا ۔۔۔
مومن یہ قیامت ہے برپا
ہے سر پہ بُکا سب آلِ عبا
سرور نے کلیجہ تھام لیا
جب آ کے سکینہ نے پُوچھا
بابا میرے عموں دریا سے
آئے نہ پلٹ کر واویلا
واویلا واویلا ۔۔۔