حق کر گئے مادر کے ادا سارے کے سارے
ماموں پہ فدا ہو گئے زینب کے دُلارے
حق کر گئے ۔۔۔
سمجھاتی تھی بچوں کو بڑے پیار سے زینب
بھولے سے نہ جانا کبھی دریا کے کنارے
حق کر گئے ۔۔۔
پیاسی ہے سکینہؑ رہے ہر آن یہی دھیان
پانی کا تصور نہ ہو ذہنوں میں تمہارے
حق کر گئے ۔۔۔
گھوڑوں سے گرو بھی توصدا رن سے نہ دینا
دیکھو میں خفا ہوں گی جو ماموں کو پُکارے
حق کر گئے ۔۔۔
میں خیمے سے دیکھوں گی جری کون ہے تم میں
للکار کے پہلے جو بنِ سعد کو مارے
حق کر گئے ۔۔۔
وعدہ جو کیا ماں سے وفا کر گئے دونوں
پیاسے ہی لڑے پیاسے ہی دنیا سے سدھارے
حق کر گئے ۔۔۔
صد ہے تو ہے اے دشتِ بلا تیری زمیں نے
سب چھین لیئے زینبِؑ مُضطر کے سہارے
حق کر گئے ۔۔۔
پالا تھا جنہیں گود میں وہ جا بسے بن میں
ا ب کون ہے زینبؑ کو جو ماں کہہ کے پُکارے
حق کر گئے ۔۔۔