پکاروں گی میں بابا کو بھلا مارے تمانچے تُو
تو چاہتا ہے میں نہ روؤں، مجھے بابا ملا دے تُو
رکیں گی نہ میری آہیں، ہیں جب تک بھی میری سانسیں
میں چیخوں گی چلاؤں گی
بھلا جو بھی سزا دے تو
اگر چاہتا ہے کہ زنداں میں خاموشی ہو تو یہ سُن لے
میں ہو جائونگی چُپ لیکن
ہاں سَر بابا کا لادے تو
میں اپنا سر پٹکتی ہوں تڑپتی ہوں سسکتی ہوں
رُکے گا نہ میرا رونا
ستم لاکھ بھی ڈھالے تو
یہ زندان کی دیواروں پہ لہو میرا پکارے گا
میرے رونے پہ آئے ظالم
بھلا پہرے لگا لے تو
اندھیرا ہی اندھیرا ہے رُکے گا نہ میرا ماتم
بھلا چاہے یہ زنداں کو
قبر میری بنا دے تو
ملا سر تو معصومہؑ نے شمر سے یہ کہا گوہر
میرا لاشہ اُٹھائےگا
میرا بھیا بُلا دے تو