فرس کی زین سے بے شک اُترگئے ہیں حسین
زمین ڈھونڈ رہی ہے کدھر گئے ہیں حسین
کرے گا شمر کا خنجر تو صرف سر کو جُدا
وگرنہ لاشہِ اکبر پہ مر گئے ہیں حُسین
فرس کی زین سے۔۔۔
سرِ بُریدہ کٹے ہونٹ خون چہرے پر
عجیب حال میں شیریں کے گھر گئے ہیں حسین
فرس کی زین سے۔۔۔
میں ملنے شام کے زندان میں آئوں گا تجھ سے
یہ بات آخری بیٹی سے کر گئے ہیں حسین
فرس کی زین سے۔۔۔
کہیں ہیں قاسم و عباس اور کہیں اکبر
کہاں کہاں تیرے ٹکڑے بکھر گئے ہیں حسین
فرس کی زین سے۔۔۔
قضائ کے بعد بھی بھائی بہن کے ساتھ رہا
جدھر جدھر گئی زینب اُدھر گئے ہیں حسین
فرس کی زین سے۔۔۔
کسی نے مارا ہے پتھر بہن کے کیا اکبر
جو کرتے کرتے تلاوت ٹھہر گئے ہیں حسین
فرس کی زین سے۔۔