شبیر ا کلیے ہیں کمر ٹو ٹ چُکی ہے
اور لا ش جو ا ں سا ل کی مقتل میں پڑ ی ہے
شا ہ چُو ر ہیں زخموں سے نہیں خو ن بدن میں
لب چپکے ہُوئے اور ذُ با ں کا کا نٹو ں بھر ی ہے
شبیر سے ا ب ذین پہ سمبھلا نہیں جا تا
یہ حا ل ہے اور آخر ی سجدے کی گھڑی ہے
شا ہ جا تے ہیں اصغر کا لہو رخ پہ لگا کر
اور ما درِ ا صغر درے خیمہ پہ گھڑی ہے
کہتے ہیں مسلما ن کہ ما رو ا ِ سے ما رو
کوئی نہ جِس کا وُہ شبیر یہی ہے
نیزوں سے ذمیں ظا لِموں کیوں کُھود رہے ہو
کیا تُم کو ضرورت علی ا صغر کی پٹر ی ہے
دل وا لو ذرا سو چو کہ کیا گزرے گی شا ہ پر
نیزے کی ا نی سینہِ اکبر میں گٹر ی ہے
دل تھا م کے کیو ں بیٹھ گئی ما در اکبر
کیا نو ک سنا ں ما ں کے کلیجہ میں لگی ہے
شا ہ کہتے ہیں اکبر نظر آتا نہیں رستہ
کیا سا تھ غر یبی میں نظر چُھوڑ چکی ہے
یہ تا زیہ دا ری ہے محبت کی علا مت
آنسوں نہ نثا ر آہیں تو یہ سنگدلی ہے