اٹھا کوئی جنازہ پھر سیدہؑ کے گھر سے
حسرت برس رہی ہے اک ایک بام و در سے
یہ کس کو رو رہی ہے زینبؑ تڑپ تڑپ کر
جنت میں سیدہؑ نے چادر گرا دی سر سے
جس نے خدا کے گھر کو بخشی تھی آکے زینت
وہ آج ہو رہا ہے رخصت خدا کے گھر کو
ہے بند آنکھ شاید آرام آگیا ہے
مولاؑ تڑپ رہے تھے ۱۹ کی سحر سے
زینبؑ کے بازوؤں کو شبیرؑ چومتے ہیں
کیا جانئے علیؑ نے کیا کہہ دیا پسر کو
قاتل کو اپنے گھر کا شربت پلانے والا
بے چین ہو رہا ہے اب زہر کے اثر سے
کوفے کا ذرہ ذرہ روتا ہے خوں کے آنسو
محروم ہو رہے ہیں حسنین ؑ اب پدر سے