بیڑیاں پہنے ہوئے قافلہ سالار چلا
ہائے بیمار چلا
آ رہی ہے در و دیوار سے رونے کی صدا
ہائے بیمار چلا
ہائے جلتی ہے زمیں آگ اگلتی ہے زمین
کوئی سایہ بھی نہیں
آبلے پڑ گئے پیروں میں بدن جلنے لگا
ہائے بیمار چلا
پیر کیا ہاتھوں پہ گردن پہ پڑے ہیں چھالے
کوئی پانی ڈالے
تپتے ہے طوق و سلاسل ہے بہَت گرم ہوا
ہائے بیمار چلا
کانٹے چُبھ جاتے ہیں چھالے کبھی چِھل جاتے ہیں
ہائے دکھ پاتے ہیں
ہائے کس حال میں ہیں ابن شہہِ کرب و بلا
ہائے بیمار چلا
آہ کرتے ہیں تو درّوں کی سزا پاتے ہیں
یوں تڑپ جاتے ہیں
پا برہنا یہ اذیّت کا سفر اور یہ جفا
ہائے بیمار چلا
چیخ اُٹھتی ہے تو زخموں سے لہو بہتا ہے
ہر ستم سہتا ہے
کس سے فریاد کرے بھائی نہ بابا نہ چچا
ہائے بیمار چلا
تازیانے کبھی مارے کبھی پتھر مارے
ہائے شہہؑ کے پیارے
کس قدر زخمی مسافر پہ ہوئی جور و جفا
ہائے پیمار چلا
دیکھ کر بیٹے کی حالت کو تڑپ اٹھتی ہے ماں
یہ بھی ہوتا ہے گماں
آ نہ جائے کہیں بیمار کو رستے میں قضا
ہائے بیمار چلا
سَر کھلے مائیں ہیں بہنیں ہیں ستمگاروں
ہائے بازاروں میں
سر جھکائے ہوئے روتا ہوا خوددار چلا
ہائے بیمار چلا
ہائے کس حال میں ہے سبطِ پیمبرؐ صفدر
خاک اڑاؤ گوہر
پیٹ کر سینہ و سر بین کرو اھل عزا
ہائے بیمار چلا