ہاۓ شام کا بازار
سجادؑ سے رونے کا سبب پوچھ رہا ہے
جو شام میں گزری ہے وہ سب پوچھ رہا ہے
وہ لاکھ تماشائی بے پردہ پھوپھی بہنیں
کیسے نہ لہو روئيں بیمار کی پھر آنکھیں
اس غم کی اذیت نے اسے مار دیا ہے
کس طرح قرار آۓ بیمار کو اے لوگوں
سر نیزوں پہ پیاروں کے آتے ہیں نظر جس کو
بے جرم مسافر کی یہ کیسی سزا ہے
آنکھوں سے ہے خوں جاری غمخوار ہے بیمار بھی
زنجیر ہے پیروں میں اور طوق بھی ہے بھاری
جلتی ہے زمیں ساری اور گرم ہوا ہے
تاخیر نہیں مانگی زنجیر نہیں بدلی
ساۓ میں نہیں بیٹھا پوشاک نہیں بدلی
ماں بہنوں کی خاطر وہ ردا مانگ رہا ہے
زنداں کے مصائب بھی ہر وقت رلاتے ہیں
اشکوں کو مگر اپنے زینبؑ سے چھپاتے ہیں
مرجاۓ نہ زینبؑ یہ کہیں سوچ رہا ہے
زنداں سے رہا ہو کے بھی زنداں میں ہیں سجادؑ
اک ننھی سی تربت جو وہاں کرتی ہے فریاد
مر کے بھی رہوں قید یہ کیا میری خطا ہے
یہ زخم بھی سجادؑ کو جینے نہیں دیتا
زخموں سے سکینہؑ کے جو چپکا رہا کرتہ
وہ خوں بھرا کرتہ ہی کفن اس کا بنا ہے
بازار میں دربار میں زنداں میں روۓ
چالیس برس موت کے ارمان میں روۓ
ریحان میرا مولا تڑپتا ہی رہا ہے
سجادؑ سے رونے کا سبب پوچھ رہا ہے
جو شام میں گزری ہے وہ سب پوچھ رہا ہے
ہاۓ شام کا بازار