ہائے رخصت ہوئے دنیا سے جو عابدؑ مولا
غسل دینے كے لیے باپ کو بیٹا آیا
جسم جب باپ کا دیکھا تو کہا وا ویلا
باپ كے سامنے باقرؑ نے کہا ہئے بابا
غسل میں آپ کو کس طرح بھلا دوں بابا
جسم زخموں كے نشانوں سے بھرا ہے سارا
یاد آتا ہے مجھے شام برابر بابا
ہائے بازار میں ماؤن کا کُھلا سَر بابا
نوک پر نیزے کی ننھا علی اصغرؑ بابا
خوں رلاتے تھے تمہیں شام كے منظر بابا
ظلم کی آندھیاں چلتی تھیں لعیں ہنستے تھے
ہائے سب بیبیاں روتی تھیں لعیں ہنستے تھے
جسم پر آپ كے نظریں میں ٹِکاؤں کیسے
غسل کا حق جو ملا ہے وہ نبھاؤں کیسے
اپنے ہاتھوں کو تیری پشت پہ لاؤں کیسے
اپنی آنکھوں سے وہ منظر میں بُھلاؤں کیسے
شام کی راہ میں جب موڑ کوئی آتا تھا
پشت پر درّے لعیں آپ کی برساتا تھا
غسل دیتے ہوئے گردن کی جو باری آئی
ہائے یہ دیکھ كے نم آنکھ ہوئی باقرؑ کی
طوق اور گردنِ بیمار کی یاد آنے لگی
رو كے باقرؑ نے کہا ہائے غریبی تیری
ہائے گردن كے نشانات یہ بتلاتے ہیں
ارے طوق پہنے ہوئے تم نے جو سفر کاٹے ہیں
پاؤں دھونے كے لیے ہاتھ بڑھایا میں نے
یاد آیا ہے مجھے شام کا منظر پِھر سے
ہائے تم کیسے چلے راہ میں اُن کانٹوں پہ
دیکھ کر آپ کو سب لوگ یہی کہتے تھے
بیڑیاں پہن كے کانٹوں پہ چلا جاتا ہے
کتنا صابر ہے كے ہر ظلم سہا جاتا ہے
قتل سب کربلا میں میرے اجداد ہوئے
شام كے بعد نہ پِھر آپ کبھی شاد ہوئے
شام میں ایسے ہیں اجڑے كے نہ آباد ہوئے
ہاتھ رسی كے نشانوں سے نہ آزاد ہوئے
وقت ایسا نہ کسی کو بھی دِکھائے مولا
باپ نیزے پہ ہو اور ماں ہو کُھلے سر بابا
آپ کی آنکھوں نے ماؤں کو کُھلے سر دیکھا
آپ کی آنکھوں نے پھپیوں کو کُھلے سر دیکھا
آپ کی آنکھوں نے بہنوں کو کُھلے سر دیکھا
آپ کی آنکھوں نے چچیوں کو کُھلے سر دیکھا
ہائے بازار میں یہ ظلم و ستم ہوتے رہے
آپ چالیس برس ہائے لہو روتے رہے
غسل جب دے چکے سجادؑ کو مولا باقرؑ
دفن پِھر باپ کو کر آئے بقیعہ باقرؑ
ہائے ذیشان مگر کوئی یہ دیکھے جا کر
ہائے مظلوم کی غربت کا عجب ہے منظر
خود بھی مظلوم تھا تُربت بھی ہے مظلوم اُس کی
تربتِ فاطمہ زہراؑ کی طرح ٹوٹی ہوئی