شبِ عاشور خیمئہ کلثوم سے آتی تھی صدا
ہائے ہائے ہائے میں بھی زینب کی طرح
بھائی کا دیتی صدقہ کاش میرا کوئی بیٹا ہوتا
شبِ عاشور تھا کلثوم کے لب پر نوحہ
ساتھ پردیس میں بھائی کا برابر دیتی
شہہ کے بے شیر پہ قربان اُسے کر دیتی
دل میں حسرت ہی رہی عون ومحمد جیسا
کاش میرا کوئی بیٹا ہوتا
شبِ عاشور تھا کلثوم۔۔۔
داغ بیٹے کی جُدائی کا اُٹھا لیتی بہن
اپنے بھائی کی نشانی کو بچا لیتی بہن
شہہ کے اکبر کی جگہ سینے پہ کھاتا نیزہ
کاش میرا کوئی بیٹا ہوتا
شبِ عاشور تھا کلثوم۔۔۔
ہاتھ ہو جاتے قلم رَن میں میرے بیٹے کے
سرِ خوں اپنا بہا دیتا وہ پانی کے لیے
لے کے غازی سے رضا اُس کو بناتی سقہ
کاش میرا کوئی بیٹا ہوتا
شبِ عاشور تھا کلثوم۔۔۔
ساتھ شبیر کے جس طرح ہے غازی کی وفا
وہ بھی آقا کو کبھی اپنے نہ زحمت دیتا
ساتھ سجاد کا ہر موڑ پہ دیتاوہ صدا
کاش میرا کوئی بیٹا ہوتا
شبِ عاشور تھا کلثوم۔۔۔
کہتی شبیر سے زحمت نہ اُٹھائو بھائی
گھر میں سادات کے صدقے کو نہ لائو بھائی
اُس کا خیموں میں کبھی آنے نہ دیتی لاشہ
کاش میرا کوئی بیٹا ہوتا
شبِ عاشور تھا کلثوم۔۔۔
جب سُنے بین یہ تکلم تو یہ غازی نے کہا
کل یہ عباس فدا تیری طرف سے ہو گا
تجھ کو بابا کی قسم اب نہیں دینا یہ صدا
کاش میرا کوئی بیٹا ہوتا
شبِ عاشور تھا کلثوم۔