ہائے علیؑ قتل ہوگئے
جبریلؑ دے رہے تھے ندا كے غضب ہوا
حیدرؑ کو قتل خانہءِ خالق میں کر دیا
ہائے علیؑ قتل . . . .
شہزادیوں نے جونہی سنی غم کی یہ صدا
بیتاب ہوکے روئیں اور حسنینؑ سے کہا
مسجد میں جاکے دیکھو ذرا کیا ہے ماجرا
یہ کون کہہ رہا ہے ہوئے قتل مرتضیٰؑ
ہائے علیؑ قتل . . . .
ضربِ لعیں سے ہو گیا جس دم دو پارہ سر
اس دم الم سے ہلتے تھے مسجد كے بام و در
محراب اور مصلہ ہوا سارا خوں میں تر
کانپا فلک تو زلزلہ آیا زمین پر
ہائے علیؑ قتل . . . .
دوڑے یہ سنتے ہی سوئے مسجد حسنؑ حسینؑ
دیکھا نمازی کرتے ہے نالے با شور و شین
اپنے لہو میں لوٹتے ہیں شاہِ مشرقین
پایا پدر کو ایسے کئے دونوں نے یہ بین
ہائے علیؑ قتل . . . .
دیکھا نمازیوں نے جو بیٹوں کو ہٹ گئے
حسنینؑ بڑھ کے اپنے پدر سے لپٹ گئے
نالے کئے وہ سن کے جگر غم سے پھٹ گئے
رقت سے دوستوں كے کلیجے اُلٹ گئے
ہائے علیؑ قتل . . . .
یوں ہو رہی تھی سینہ زنی نالہ و بکا
آئی کہیں قریب سے فضہؑ کی یہ صدا
زہراؑ کی بیٹیوں کو نہیں یارا ضبط کا
بےچین ہیں وہ دیکھنے کو حال مرتضیٰؑ
ہائے علیؑ قتل . . . .
کیا حال ہے پدر کا نہ آکر بتاؤ گے
حسنینؑ سے کہو كہ جو اُن سے چھپاؤ گے
حیدرؑ کو جلد گھر میں اگر تم نہ لاؤ گے
زینبؑ کو سَر کھلے ہوئے مسجد میں پاؤ گے
ہائے علیؑ قتل . . . .
آواز سن کے بولے علیؑ یہ بجا نہیں
ہم بے سہارا بے کس و بے آشنا نہیں
ہے پاس سب رفیق یہ اہل جفا نہیں
کوفہ ہے کہہ دو بیٹی سے یہ کربلا نہیں
ہائے علیؑ قتل . . . .
حسنینؑ لے کے بابا کو پہنچے قریبِ دَر
سب ہٹ گئے انیس جو آیا علیؑ کا گھر
بیتاب ہوکے بیٹیاں نکلی برہنہ سر
لپٹی پدر سے آہ ہوئی اِس طرح نوحہ گر
ہائے علیؑ قتل . . . .