اسلام کا دل مادرِ امت ہیں خدیجہؑ
خالق کی عطا دیں کی ضرورت ہیں خدیجہؑ
ہر طرح کے دکھ جھیلے ہیں اسلام کی خاطر
وہ پیکرِ اخلاق و محبت ہیں خدیجہؑ
آج تک کوئی سمجھا کہاں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
بس فقط ہیں تیری رازداں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
جگماتی نہ توحید میں
گر سمٹتی نہ توحید میں
آخرش پھر سمٹتی کہاں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
ابتدا انتہا کبریا
انبیاء اولیاء اوصیا
سب ہیں چپ بولتی ہیں جہاں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
ذاتِ شاھد میں مشھود میں
ہاں وجود اور موجود میں
کم سے کم ہے جو فصلِ کماں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
حُسن کی دید کی عین تک
جلوہءِ قابَ قوصین تک
ہاں بس اِک پردہءِ درمیاں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
کس کو یارا کرے گفتگو
گونجتی ہے یہاں صرف ھُو
بولتی ہیں خدا کی زباں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
پوچھتی ہے سلونی یہی
ہے کوئی علم کش ہے کوئی
ہائے کوئی نہیں ہے یہاں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
دم بہ دم پے بہ پے جا بجا
کہہ رہی ہے یہ کُن کی صدا
کاڑھ لیتی ہیں خود سے جہاں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
کیسا کوئی سلام و کلام
جب نہیں ہے جوابِ سلام
اُف یہ توقیرِ علم الاماں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
رو رہی ہیں جو شام و سحر
فاطمہؑ تیری تنہائی پر
فاطمہؑ پہ ہیں گریہ کناں
اے علیؑ تیری تنہائیاں