ہائے ہائے ہائے
خاموشیوں سے ہی پوچھو
اِن آنسوؤں سے ہی پوچھو
بڑے ظلم راہوں میں سہتی رہی ہے
یتیمی كے تعنے یہ سہتی رہی ہے
نہیں مار ظالم طمانچے اسے
نہ کر اس کا دشوار جینا
بہت رو چکی ہے سكینہؑ
سفر میں یہ سوئی نہ زندان آکر
اجالا کیا ہے یہاں دِل جلا کر
پِدَر سے جو بچھڑی ہے عاشور کو
سکون پا سکی پِھر کبھی نہ
بہت رو چکی ہے سكینہؑ
ملا دشت میں جب كہ بابا کا لاشہ
لپٹ كے پِدَر سے کِیا خوب گریا
وہاں پہنچی زینبؑ تو شہہ نے کہا
سلا دو اسے جا كے بہنا
بہت رو چکی ہے سكینہؑ
رسن دے گئی ہے نشانی گلے پر
ہے پیشانی زخمی جو کھائے تھے پتھر
نشان ہیں تمانچوں كے رخسار پر
مصائب سے زخمی ہے سینہ
بہت رو چکی ہے سكینہؑ
کبھی اپنے بابا كے قاتل سے ڈر کر
کبھی روئی زندان میں تنہائیوں پر
کبھی بولی زینبؑ كہ اب گھر چلو
ہوا اک برس اک مہینہ
بہت رو چکی ہے سكینہؑ
قیامت کی اک رات ایسی بھی آئی
قضا نے سكینہؑ کو لوری سنائی
کہا روکے سجادؑ نے اے پھوپھی
كہ اب روئےگی پِھر کبھی نا
بہت رو چکی ہے سكینہؑ
جو قبرِ سكینہؑ پہ روتے تھے قیدی
تو ان رونے والوں سے بانو یہ کہتی
ابھی تھک كے سوئی ہے زندان میں
جگائےاسے اب کوئی نا
بہت رو چکی ہے سكینہؑ
یہ کہتا ہے فرحان سے روکے مظہر
جو قبر سكینہؑ پہ جانا
وہاں جاکے کہنا یہی
بہت رو چکی ہے سكینہؑ