ہے کربلا کے بن میں غریبوں کا اربعیں
شبیر کے مزار پہ زینب کی ہے جبیں
آنسو بہا رہے ہیں کھڑے عابدِ حزیں
آباد تھی حسین کے قدموں سے یہ زمیں
اب حال یہ ہے سر پہ کوئی سائباں نہیں
ہے کربلا کے ۔۔۔۔۔
ماں جائے پہلے آگ لگی خیمہ گاہ میں
ہر داغ اک تازہ قیامت تھی راہ میں
بچی کی ہچکیوں کا ہے منظر نگاہ میں
زندانِ شام میں ہے سکینہ یہاں نہیں
ہے کربلا کے ۔۔۔۔۔
عباسِ نامور جو حرم کا تھا پاسباں
روتی تھی یاد کر کے جسے ساری بیبیاں
بس جس کی لاش پہ تھے شاہِ دوجہاں
لاشہ کہیں تھا ہاتھ کہیں اور علم کہیں
ہے کربلا کے ۔۔۔۔۔
بھیا ہمارے وعدے کی تکمیل ہو گئی
ایسا سفر ہواہے کے سر پر ردا نہ تھی
دربارِ شام میں تھی قیامت کی بے بسی
رودادِ غم سُنانے کی طاقت بھی اب نہیں
ہے کربلا کے ۔۔۔۔۔
اہلِ جہاں کو ہو گی اگر حق کی جستجو
اختر اثر دیکھائے گا مظلوم کا لہو
ہے غمزدہ بہن کی یہی ایک آرزو
آباد زیاری سے ہو جائے یہ زمیں
ہے کربلا کے ۔۔۔۔