زینب ؑ ہے سفر میں ہائے خاک ہے سر میں
کب ہوگی رہا قید سے کب جائے گی گھر میں
چہرے کو ذرا بالوں سے تم ڈھانپ لو بی بی
ماحول شرابی ہے تیری راہ گزر میں
تاریخ تیری جنگ کو دہراتی رہے گی
اصغرؑ جو لڑی تو نے چھوٹی سی عمر میں
اِک وقت تھا کوفہ کی شہزادی تھی زینبؑ
کس حال میں آئی ہے یہ بابا کے شہر میں
جس پردے کا ضامن تھا عباسِ ؑ دلاور
ہے زخم اسی پردے کا عابدؑ کے جگر میں
تھے تن پہ پھٹے کپڑے اور کان بھی زخمی
عابدؑ نے اتارا جو سکینہ ؑ کو قبر میں
شبیرؑ کے ماتم سے ہائے روکنے والو
زینبؑ کی یہ سنت ہے مومن کی نظر میں