شب چاک گریباں سحر گریہ کناں ہے
مخلوق خدا مائل فریاد و فغاں ہے
مابین زمین آسمان محشر کا سماں ہے
انیسویں رمضان کا یہ حال بیان ہے
تاریخ یہ وہ ہے جو قیامت سے نہیں کم
اے مومنوں سر پیٹو کرو گریہ و ماتم
فارغ جو تہجد سے ہوئے فاتح خیبر
اور صحن میں آئے جونہی ہجرے سے نکل کر
بس قصد کیا ہی تھا ابھی جانے کا باہر
ہوتا کے ادا فجر کا وہ فرض مقرر
مرغابیوں نے گھیر لیا حق کے ولی کو
دروازے سے جانے نہیں دیتی تھیں علیؑ کو
دروازے سے جانے۔۔۔
گویا ہوئے مرغابیوں سے حیدرؑ کرار
اس انس کی دے تم کو جزا خالق غفار
نالے نہ کرو صبر کرو اے میری غمخوار
جو وقت معین ہے وہ ٹلتا نہیں زنہار
دامن کو میرے چھوڑ دو یوں اشک نہ برسائو
مسجد میں مجھے جانے دو دروازے سے ہٹ جائو
مسجد میں مجھے۔۔۔
پہنچے جونہی مسجد میں علیؑ دیکھا یہ منظر
اوندھا پڑا سوتا ہے لعین ایک زمین پر
ؑجب اس کے قریب پہنچے تو گویا ہوئے حیدر
اٹھ پیروئے ابلیسِ شقی اور ستمگار
معلوم ہے سب کس لئے تو آیا ہے کوفہ
کس کام کے کرنے کا یہاں پر ہے ارادہ
کس کام کے۔۔۔
یہ کہہ کے اذاں دینے لگے خلق کے مولا
محراب عبادت میں ہوئے زیب مصلےٰ
مصروف ہوئے طاعت رب میں شہہ والا
تھی فجر کی پہلی وہ رکعت پہلا وہ سجدہ
تلوار عقب سے بن ملجم نے لگائی
دو پارہ کیا سر کو جبیں تک اتر آئی
دو پارہ کیا۔۔۔
سر پیٹ کے کہتے تھے نمازی کہ اے جلاد
کیا کر دیا یہ خانہ حق میں ستم ایجاد
کی حق کے ولی پر یہ بھلا کس لئے بیداد
فریاد ہے فریاد ہے فریاد ہے فریاد
اس شور و فغاں کو سنا حسنینؑ نے جس دم
مسجد کو چلے گھر سے وہ کرتے ہوئے ماتم
مسجد کو چلے۔۔۔
حسنینؑ نے آلودہ بہ خوں باپ کو پایا
وہ بین کئے جس سے کہ منہ کو جگر آیا
پھر ایک چٹائی پہ غرض ان کو لٹایا
غم خواروں نے زخمی شہ صفدر کو اٹھایا
گھر لائے مبادہ کہیں حالت نہ بگڑ جائے
سر کھولے ہوئے ثانی زہرہؑ نہ نکل آئے
سر کھولے ہوئے۔۔۔
داخل ہوئے جب گھر میں پسر باپ کو لے کر
واں نالہ و شیون سے بپا ہو گیا محشر
تھامے ہوئے تھی بیٹی کوئی پائوں کوئی سر
آہستہ سے ہجرے میں لٹایا انہیں جا کر
تھا ورد زباں وا علیا آہ و بکا میں
آواز یہی گونجتی تھی ارض و سماں میں
آواز یہی گونجتی۔۔۔