بازار میں بنتِ علی دیتی تھی صدا بھائی
عباس کہاں ہو
سر پر بھی نہیں چادر لاکھوں ہیں تماشائی
عباس کہاں ہو
عباس عباس ۔۔۔۔۔
اس عالم ِ غُربت میں کوئی بھی نہیں میرا
ہے خاکِ سفر سر پر اور رات رسن بستہ
پردیس میں زینب کو تقدیر کہاں لائی
عباس کہاں ہو
عباس عباس ۔۔۔۔۔
پیوست ہے نیزے میں سر شاہِ شہیداں کا
یہ دیکھ کے اے غازی پھٹتا ہے میرا سینہ
مر جائے گی اس غم میں شبیر کی ماں جائی
عباس کہاں ہو
عباس عباس ۔۔۔۔۔
دریا کے کنارے تم اعدائ سے گئے لڑنے
سب دیکھ رہی تھی میں دروازئہ خیمہ سے
اب جنگ ہماری بھی دیکھو تو ذرا بھائی
عباس کہاں ہو
عباس عباس ۔۔۔۔۔
دُنیا کا سہارا ہے بابا جو ہمارا ہے
مشکل میں مگر میں نے تم کو ہی پُکارا ہے
اب ڈھونڈتی ہے تم کو بھیا میری بینائی
عباس کہاں ہو
عباس عباس ۔۔۔۔۔
بے مونث و یاور ہے بتلائو کدھر جائے
اس طرح تو جینے سے بہتر ہے کے مر جائے
فریاد کرے کس سے ہوتی نہیں سُنوائی
عباس کہاں ہو
عباس عباس ۔۔۔۔۔
اے میرے جری میری امداد کو آ جائو
مانگا ہے کنیزی میں ظالم نے سکینہ کو
ہے وقت قیامت کا معصوم ہے گھبرائی
عباس کہاں ہو
عباس عباس ۔۔۔۔۔
احمد کی نواسی کا یاور یہی نوحہ تھا
نہ بھائی بچے میرے نہ کوئی بچا بیٹا
اب جی کے کروں گی کیاگر موت نہیں آئی
عباس کہاں ہو
عباس عباس ۔۔۔۔۔