مولا مقتل میں سَر کو جھکائے
لاشِ اکبرؑ پہ تنہا کھڑے ہیں
دھیمے دھیمے ٹپکتے ہیں آنسو
ہائے صغراؑ کا خط پڑھ رہے ہیں
بولے کیا میں جواب اِس کا دوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
میں تو پردیس میں لُٹ گیا
اپنے لشکر کو میں رو چکا
تیرا بابا غریب ہو گیا
ہائے اِس کے سوا کیا لکھوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
آندھیاں میرا گھر لے کئیں
میرے لخت جگر لے کئیں
میرا نور نظر لے کئیں
ہائے اِس کے سوا کیا لکھوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
خط تیرا اب سناؤں کسے
کون میری صدا پر اٹھے
شب کو جاگے ہوئے سُو گئے
ہائے اِس کے سوا کیا لکھوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
ہے صغراؑ وہ بھائی تیرا
جس نے تجھ سے تھا وعدہ کیا
کھا گئی اسکو کربوبالا
ہے اس کے سوا کیا لکھوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
پیار تو نے تھا جس کو لکھا
گھٹنیوں بھی جو نہ چل سکا
ہاں وہ اصغرؑ بھی اب نہ رہا
ہائے اِس کے سوا کیا لکھوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
شب کو دولہا بنایا جسے
راس آئی نہ مہندی جسے
روئی سہرے کی لڑیاں جسے
ہائے اِس کے سوا کیا لکھوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
اب سكینہؑ کا حافظ خدا
وقت زینبؑ پہ بھی ہے کڑا
مجھ کو گھیرے ہوئے ہے قضا
ہائے اِس کے سوا کیا لکھوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
یہ تو اچھا ہُوا لاڈلی
اپنے گھر میں تو رہ ہی گئی
بے ردائی سے تُو بچ گئی
ہائے اِس کے سوا کیا لکھوں
ہائے صغراؑ بتا کیا لکھوں
خط وہ ریحان و سرور تھا کیا
خاک سے میرا مولاؑ اٹھا
لاشِ اکبرؑ پہ خط رکھ دیا
ہائے اِس کے سوا کیا لکھوں
ہے صغراؑ بتا کیا لکھوں