بولے پدر سے اکبرؑ برچھی نہ کھینچنا
ہے جان اب لبوں پر برچھی نہ کھینچنا
بابا نظر کو پھیر لو دم ٹوٹنے لگا
برچھی کے پھل سے خون ہے دل کا رکا ہوا
اُبلے گا خوں زمیں پر برچھی نہ کھینچنا
میں نے تمہیں بلایا تھا تاکہ میں کہہ سکوں
بالکل نہ غم کرو میرے دل کو ہے اب سکوں
بیٹھے رہو یہاں مگر برچھی نہ کھینچنا
اماں کو یہ خبر نہ ہو میرے سِنا لگی
غش آگیا ہے بس ذرا شدت تھی پیاس کی
میں آرہا ہوں چھاؤں کر برچھی نہ کھینچنا
بولے حسینؑ باپ کو بہلا رہے ہیں آپ
معلوم ہے کہ یاں سے کہاں جا رہے ہیں آپ
کہتے ہو منہ کو پھیر کر برچھی نہ کھینچنا
سانسیں اکھڑ رہی ہیں تو مدھم ہے نبض بھی
کرتے ہو آہ ہم کو ہے تاکید صبر کی
کہتے ہو تھام کے جگر برچھی نہ کھینچنا
اکبرؑ پکارے باپ سے دل کو سنبھالئے
ٹوٹی سناں کلیجے میں رہنے ہی دیجئے
نکلے گا ساتھ میں جگر برچھی نہ کھینچنا
مولا ؑ نے یاعلیؑ کہا دل کوسنبھال کر
پھر خود ہی لڑکھڑا گئے برچھی نکال کر
کہتا رہا جواں پسر برچھی نہ کھینچنا
ریحان ساتھ برچھی کے دل بھی نکل پڑا
پڑھتے رہے حسینؑ بھی تا دیر مرثیہ
مان کہتی آئی ننگے سر برچھی نہ کھینچنا