نثار کرچکے جب راہِ حق میں اصغر کو
تب آئے خیمے میں شہہ رخصتِ مقرّر کو
بیان کیسے کروں بیکس کے منظر کو
تھی پیش منزلیں دُشوار ابنِ حیدر کو
کوئی نہ تھا جو کرتا سوار سرور کو
بیٹھایا گھوڑے پہ ہمشیر نے برادر کو
ہر اک بی بی کا دل غم سے تھا تہوبالا
نہ کوئی مونس و یاور نہ گود کا پالا
کوئی لپٹتی تھی دامن سے کرتی تھی نالہ
کھرے تھے سر کو جھکائے ہوئے شہہ والا
کوئی نہ تھا جو کرتا۔۔۔
بلند ہوتی تھی خیمے سے العتش کی صدا
سکینہ کہتی تھی مقتل سے جلد آئو چچا
کبھی پکارتی کوئی کہ آئو شیرِ خدا
مدد کاوقت ہے شبیر ہورہے ہیںجدا
کوئی نہ تھا جو کرتا۔۔۔
پکاری زینبِ مضطر کہاں ہو اے اکبر
اکیلا فوجِ عدو میں چلا نبی کا پسر
خبر نہ لو گے چچا کی اے قاسمِ مضطر
کہاں پہ ہے میرا شیرِ جری وفا پیکر
کوئی نہ تھا جو کرتا۔۔۔
یہ نوحہ کرتی تھی مقتل میں زینبِ کبریٰ
بچانے والا کوئی میرے بھائی کا نہ رہا
گلو بُریدہ سے دیتا تھا ہر شہید صدا
ملے حیات تو پھر ہو ہزار بار فدا
کوئی نہ تھا جو کرتا۔۔۔
کہا حسین نے زینب سے الوداع ہمشیر
بُلارہے ہیں پئے جنگ کب سے یہ بے پیر
خیال رکھنا سکینہ کا ہے بہت ہی صغیر
معاف کرنا جو کردے کبھی کوئی تقصیر
کوئی نہ تھا جو کرتا۔۔۔
لگام تھا م کے گھوڑے سے بولے یہ شبیر
ہمارے ساتھ ہے جو ظلم و ستم کا تُو بھی اسیر
سفر ہے آخری تجھ پر میرا یہ اے دلگیر
تُو ہی ہے مونس و غمخوار میرا وقتِ اخیر
کوئی نہ تھا جو کرتا۔۔۔
امام ِوقت سے جب ذولجناح نے یہ سنا
زبانِ حال سے وہ بے زباں ہوا گویا
حضور آپ پہ سو بار میری جان فدا
زہِ نصیب کے یہ فرض آپ نے سونپا
کوئی نہ تھا جو کرتا۔۔۔
میں جانتا ہوں کہ یہ آخری سواری ہے
کرو ںجہاد یہ خود مجھ کو بے قراری ہے
سموں سے لپٹی ہوئی آپ کی دُلاری ہے
میرے پدر کو نہ لیجا یہ لب پہ جاری ہے
کوئی نہ تھا جو کرتا۔۔۔
انیس رخصتِ آخر کے وقت تھا محشر
کوئی تو پیٹتی تھی سینہ کوئی بی بی سر
کبھی پکارتی تھی اپنے پیاروں کو رُوکر
کہاں پہ ہو زرا یہ حال دیکھ لو آکر
کوئی نہ تھا جو کرتا۔۔۔